نہیں قیدِ رنج وغم سے کوئی صورتِ رہائی

اے غیاث مستغیثاں ترے نام کی دُہائی

ہے ظہورِ پاک تیرا ہمہ شانِ کبریائی

تو زفہمِ من بلندی تو زفکرِ من ورائی

بہ مقامِ مصطفائی بہ مقامِ مجتبائی

بہ خیالِ من نہ گنجی بہ گمانِ من نہ آئی

وہ سکندری سے بہتر وہ تونگری سے بہتر

ترے در سے جو ملی ہے مجھے لذتِ گدائی

کبھی باریاب ہوگا کبھی باوقار ہوگی

یہ مرا دریدہ دامن ، یہ مری شکستہ پائی

اُسی بارگاہ میں ہے مرا عشق نغمہ پیرا

جہاں عقلِ خود نما کو نہیں اذنِ لب کُشائی

تری عظمتوں کے قرباں، ترے در سے مانگتا ہوں

دلِ سعدی و نظامی ، دلِ رومی و سنائی

مگر از نگاہِ خواجہ شدی فیض یاب مظہر

ہمہ ذوق و شوق و مستی ہمہ سوزِ آشنائی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]