نہیں ہے اپنی تباہی کا کچھ ملال مجھے

تو کیا دکھائی نہیں دیتا اپنا حال مجھے ؟

مجھے اُداسی کا سرطان تھا سو ڈرتے تھے لوگ

سو آپ کرنا پڑی اپنی دیکھ بھال مجھے

تُو ایک نخلِ جواں ، تیرا بوڑھا مالی مَیں

ترے عروج پہ بخشا گیا زوال مجھے

سخی! میں کسی اور در پہ جا نہیں سکتا

ترے ہی در کا بھکاری ہوں ، لاکھ ٹال مجھے

ہنر ورو! مرے فن پر کرو گے کیا تحقیق

سوائے غم نہیں حاصل کوئی کمال مجھے

میں تیری راہ میں بیٹھا ہوں اُٹھ نہ جاؤں کہیں

خدا کے واسطے کر ڈال پائمال مجھے

لباسِ عمر مرے جسم و جاں پہ تنگ رہا

کبھی جچے ہی نہیں میرے ماہ و سال مجھے

میں آدمی ہوں فرشتہ نہیں مگر ترے بعد

کبھی نہ آیا کسی اور کا خیال مجھے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]