وار دنیا کا چل نہ جائے کہیں
تو بھی ہم سے بدل نہ جائے کہیں
وہ پشیماں تو لازماََ ہو گا
شوق کی عمر ڈھل نہ جائے کہیں
اے غمِ یار تیری عمر دراز
میری آہوں سے جل نہ جائے کہیں
چُپ تو بیٹھے ہیں سامنے اُس کے
کوئی آنسو نکل نہ جائے کہیں
اُس نے وعدہ کیا کل آنے کا
کل کا سورج بھی ڈھل نہ جائے کہیں
بھول بیٹھے تو ہیں سکونؔ اُسے
دل اچانک مچل نہ جائے کہیں