وار دنیا کا چل نہ جائے کہیں

تو بھی ہم سے بدل نہ جائے کہیں

وہ پشیماں تو لازماََ ہو گا

شوق کی عمر ڈھل نہ جائے کہیں

اے غمِ یار تیری عمر دراز

میری آہوں سے جل نہ جائے کہیں

چُپ تو بیٹھے ہیں سامنے اُس کے

کوئی آنسو نکل نہ جائے کہیں

اُس نے وعدہ کیا کل آنے کا

کل کا سورج بھی ڈھل نہ جائے کہیں

بھول بیٹھے تو ہیں سکونؔ اُسے

دل اچانک مچل نہ جائے کہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]