وہ بھیجتا تھا دلاسے تو اعتماد بھرے

مگر یہ زخم بڑی مدتوں کے بعد بھرے

قسم خدا کی بغاوت کی سمت کھینچتے ہیں

یہ سب رویے تعصب بھرے ، عناد بھرے

کہیں پہ عکس مکمل ، کہیں ادھورے تھے

جو آئینے بھی میسر تھے سب تضاد بھرے

یہ عشق ایک دن اپنی ہوس دکھائے گا

سو نظریات بدل لینا اعتقاد بھرے

جو ماں کے پیار سے گوندھے ہوئے تھے کھانوں میں

وہ ذائقے ہی نہیں بھولتے سواد بھرے

ابھی بھی چیر کے رکھتے ہیں سب رگیں دل کی

تمہارے آخری نامے جو تھے فساد بھرے

یہ صرف دھاگے نہیں ہونگے منتوں والے

یہ خواب ہونگے کسی شخص کے مُراد بھرے

میں جارہی ہوں بہت دور ، اپنی آنکھوں میں

بہت سے اشک بھرے ، ڈھیروں ڈھیر یاد بھرے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]