وہ تو یہ خیر ہو گئی جلدی سنبھل گیا

شکوے کا کوئی حرف نہ منہ سے نکل گیا

سچ بات کی تو شوخ کا تیور بدل گیا

دامن جو تھاما ، جامے سے باہر نکل گیا

میں نے تو ضبطِ عشق میں کچھ کوتہی نہ کی

نہ جانے کیسے آنکھ سے آنسو نکل گیا

پستی میں کچھ یہ ہستی ہے انسان کی بھلا

مہماں سرائے دہر میں آج آیا کل گیا

کوثر کی سوت آ گئی جب تا بہ میکدہ

پیرِ مغاں سے شیخ بھی پگڑی بدل گیا

سائلؔ تمہارے شعر کی تعریف کیا کریں

مضموں جو آیا ذہن میں سانچے میں ڈھل گیا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]