وہ حبیبِ رب شہ دو سرا​

وہ شعور و فکر کی آگہی​

وہی نور حق وہی شمع جاں​

وہ ہی کائنات کی روشنی​

وہ دیار جود و سخا کہو​

وہ مدینہ شہر وفا کہو​

تمہیں کیا بتاؤں کہ اس جگہ​

جو کہی ہے میں نے، سنی گئی​

کبھی اہل عشق میں چھڑ گیا​

جو بیانِ سیرت مصطفٰی​

مجھے یوں لگا کوئی روشنی​

میرے قلب و جاں میں اتر گئی​

بجز ان کے ہے کوئی اور بھی​

جو ہو جلوہ گر سرِ لا مکاں​

نہ ملائکہ کا گزر جہاں​

نہ پہنچ سکا کوئی آدمی​

نہ وہ صبح ہے نہ وہ شام ہے​

یہ انہی کا فیض دوام ہے​

میرے الجھے کام سلجھ گئے​

میری بگڑی بات سنور گئی​

فقط آنسوؤں کے سوا کہاں​

میرے پاس حسنِ عمل کوئی​

یہ شکیل فیض ہے نعت کا​

میری بات پھر بھی بنی رہی​

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]