وہ زخم جو معمول سمجھتے تھے ، بھرے کیا؟

اب عشق بھلا اور کرامات کرے کیا؟

یہ ضِد مری ہم عمر رہی ہے کہ میں دیکھوں

منظر ہے بھلا حدِ بصارت سے پرے کیا؟

کیا سوچ کے سینچے ہے یہ صدمات لہو سے

ہو جائیں گے اس طور ترے پات ہرے کیا؟

اک تارِ تنفس ہے کہ لے دے کے بچا ہے

دِل یہ بھی ترے دستِ کُشادہ پہ دھرے کیا؟

اُبھری ہے جو یکبار چھنک ، خیر نہیں ہے

پھر کانچ کسی خواب کا توڑا ہے ، ارے کیا؟

ائے بحرِ ابدگیر ، کہاں پیر دھروں میں؟

جو ساحلِ امید تھے ، سب ڈوب مرے کیا؟

گرِ جائے گی لٹکی ہوئی تلوار ، کسی دِن

تا عمر کوئی مرگِ یقینی سے ڈرے کیا؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]