وہ صبحِ منور مکے کی ، وہ جگمگ رات مدینے کی

وہ صبحِ منوّر مکّے کی ، وہ جگمگ رات مدینے کی

عمّامہ سنہرے ریشم کا ، چادر نیلے پشمینے کی

صحرا سے ندا سی آتی ہے راتوں میں مجھ کو جگاتی ہے

یہ دل پر تھاپ کسی دَف کی یہ ہُوک کسی سازینے کی

ان اونچے ٹیلوں کے پیچھے کوئی ہجر کا نغمہ گاتا ہے

ہم ٹھنڈی ریت پہ بیٹھے ہیں ، میں اور یہ شب زرّینے کی

کل رات یکایک جاگ اٹھے کچھ منظر خفتہ یادوں کے

پھر خوشبو آئی قہوے کی پھر تیز مہک پودینے کی

میں جو اور دودھ پکاتا ہوں پھر ان میں شہد ملاتا ہوں

مرے دل سے رنج مٹاتی ہے تاثیر اسی تلبینے کی

اک عنبر صاع کھجوروں کا اک خوشہ سبز انگوروں کا

یہ سب یاقوت و زمرد ہیں دولت انمول خزینے کی

جو کی روٹی کا نوالہ ہے اک برتن سرکے والا ہے

یہ دنیا قیمت کیا جانے مرے مملوکہ گنجینے کی

اک کوزہ مجھ کو بلاتا ہے جی بھر کے نبیذ پلاتا ہے

پھر پیاس مری بھڑکاتا ہے اک سیرابی میں جینے کی

ممکن ہے کہ اک دن یہ دونوں مرے ہاتھ پکڑ کر لے جائیں

یہ خواہش عجوہ کھانے کی ،  یہ حسرت زمزم پینے کی

میں بئر اریس پہ بیٹھا ہوں پانی پر نقش ابھرتے ہیں

وہ نقرئی مہر انگوٹھی کی ، خاتم نقشین نگینے کی

——

اے خالق عظمتِ ابجد کے’ اے خالق نعتِ محمد(ص) کے

سکھلا دے لفظ سلیقے کے’ بتلادے بات قرینے کی

ممکن ہے کہ دوسری دنیا کی تقویم میں بس اک ساعت ہو

اس ماہ ربیع الاوّل کی’اس عالم ساز مہینے کی

تشکیک زدہ ان لوگوں میں ہم لوگ یقیں پروردہ ہیں

ہم آخری منزل جانتے ہیں اس نیلے گول سفینے کی

تھک ہار کے آخر جب تجھ تک آئے گی تو دنیا کردے گی

تائید سبھی اندازوں کی’ تصدیق ہراک تخمینے کی

واللہ انہی کے کرم سے ہے’ لاریب انہی کے دم سے ہے

یہ ندرت میرے لفظوں میں یہ برکت میرے سینے کی

سرمایہ میرے اب و جد کا یہ ہیرا دینِ محمد کا

سب رب کی عطا اور محنت ہے نسلوں کے خون پسینے کی

شجرے کے آخری کونے پر اک نام سعودؔ بھی لکھا ہے

یہ پیڑھی نچلی سیڑھی ہے چو دہ سو سالہ زینے کی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]