وہ کلاہِ کج، وہ قبائے زر، سبھی کچھ اُتار چلا گیا

ترے در سے آئی صدا مجھے، میں دِوانہ وار چلا گیا

کسے ہوش تھا کہ رفو کرے یہ دریدہ دامنِ آرزو

میں پہن کے جامۂ بیخودی سرِ کوئے یار چلا گیا

مری تیز گامیِ شوق نے وہ اُڑائی گرد کہ راستہ

جو کھلا تھا میری نگاہ پر وہ پسِ غبار چلا گیا

نہ غرورِ عالمِ آگہی، نہ جنون و جذبۂ بیخودی

مئے عشقِ خانہ خراب کا ہر اک اعتبار چلا گیا

تری کائناتِ جمال میں جو عطائے دستِ مجال تھا

مرے شوقِ افسوں طراز کا وہی اختیار چلا گیا

میں ادا کروں کہ قضا کروں، اسی کشمکش میں بسر ہوئی

یونہی سجدہ گاہِ حیات سے میں گناہگار چلا گیا

ترے آستاں سے گلہ نہیں، دلِ سوختہ ہی عجیب ہے

کبھی بے سکون ٹھہر گیا، کبھی بے قرار چلا گیا

تری جلوہ گاہِ نیاز میں، ہے کوئی تماشۂ آرزو

کبھی تابِ دید نہ آ سکی، کبھی انتظار چلا گیا

مجھے کاروبارِ وفا ملا، وہ متاعِ صبر و غنا ملی

مرے دن ظہیرؔ بدل گئے، غمِ روزگار چلا گیا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]