پندار کی ویران سرا میں نہیں رہتے

ہم خاک پہ رہتے ہیں خلا میں نہیں رہتے

قامت بھی ہماری ہے، لبادہ بھی ہمارا

مانگی ہوئی دستار و قبا میں نہیں رہتے

ہم کشمکشِ دہر کے پالے ہوئے انسان

ہم گریہ کناں کرب و بلا میں نہیں رہتے

خاشاکِ زمانہ ہیں، نہیں خوف ہمیں کوئی

آندھی سے ڈریں وہ جو ہوا میں نہیں رہتے

ہم چھوڑ بھی دیتے ہیں کھُلا توسنِ دل کو

تھامے ہوئے ہر وقت لگامیں نہیں رہتے

روحوں میں اتر جاتے ہیں تیزاب کی صورت

لفظوں میں گھلے زہر صدا میں نہیں رہتے

احساس کے موسم کبھی ہو جائیں جو بے رنگ

خوشبو کے ہنر دستِ صبا میں نہیں رہتے

اونچا نہ اُڑو اپنی ضرورت سے زیادہ

تھک جائیں پرندے تو فضا میں نہیں رہتے

دستار بنے جاتے ہیں اب شہرِ طلب میں

کشکول کہ اب دستِ گدا میں نہیں رہتے

اس خانہ بدوشی میں خدا لائے نہ وہ دن

جب بچھڑے ہوئے یار دعا میں نہیں رہتے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]