پوری نہ جس طرح سے ہو حمدِ خدا کبھی

کامل نہ ہو ثنائے شہِ دو سرا کبھی

روشن ہوئی جو شمع بہ غارِ حرا کبھی

تھی با خدا وہ زینتِ عرشِ عُلا کبھی

بجلی چمک اٹھی جو دیے مسکرا کبھی

موتی برس پڑے جو تکلم کیا کبھی

میرے نبی کی طرح کوئی جامع الصفات

خلّاقِ دوجہاں نے نہ پیدا کیا کبھی

باتیں وہ ہیں کہ منطقی و فلسفی نثار

اُمی لقب نے گرچہ نہ لکھا پڑھا کبھی

یکتائے روزگار ہے وہ شانِ خلق میں

احساں کیے ہزار نہ احساں دھرا کبھی

امت کی فکر نے اسے بے چین ہی رکھا

سویا نہ میٹھی نیند وہ درد آشنا کبھی

اللہ رے نصیب، لگے اس کو چار چاند

اس چاند کے جو گرد ستارا رہا کبھی

اٹھتی جو ساتھیوں کی طرف چشمِ مکتحل

ہوتا تھا کیف اس کا نہ دل سے جدا کبھی

سنت سے اس کی ہٹ کے چلا جو بھی راہرو

منزل نہ مل سکے گی اسے برملا کبھی

پڑھیے درود ایک تو دس نیکیاں ملیں

وعدے سے اپنے پھر نہیں سکتا خدا کبھی

رب سے حصولِ خلد کی امید رکھ نظرؔ

ہاں ٹوٹنے نہ پائے یہ تارِ ثنا کبھی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]