چلنے کا حوصلہ نہیں رکنا محال کر دیا

عشق کے اس سفر نے تو مجھ کو نڈھال کر دیا

اے مری گل زمیں تجھے چاہ تھی اک کتاب کی

اہل کتاب نے مگر کیا ترا حال کر دیا

ملتے ہوئے دلوں کے بیچ اور تھا فیصلہ کوئی

اس نے مگر بچھڑتے وقت اور سوال کر دیا

اب کے ہوا کے ساتھ ہے دامن یار منتظر

بانوئے شب کے ہاتھ میں رکھنا سنبھال کر دیا

ممکنہ فیصلوں میں ایک ہجر کا فیصلہ بھی تھا

ہم نے تو ایک بات کی اس نے کمال کر دیا

میرے لبوں پہ مہر تھی پر میرے شیشہ رو نے تو

شہر کے شہر کو مرا واقف حال کر دیا

چہرہ و نام ایک ساتھ آج نہ یاد آ سکے

وقت نے کس شبیہ کو خواب و خیال کر دیا

مدتوں بعد اس نے آج مجھ سے کوئی گلہ کیا

منصب دلبری پہ کیا مجھ کو بحال کر دیا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]