چَھن رہی ہے بند پلکوں سے بھی غم کی روشنی

ڈھانپئے کیسے شکستِ خواب کی عریانیت

کیا بھلا ممکن جوازِ ترکِ راہِ آرزو

فہم سے بالا رہی ہے جستجو کی ماہیت

دست بستہ سرنگوں ہے بے نیازی حسن کی

کس قدر بارعب ہوگی عشق کی آفاقیت

آنکھ میں جو عکس ہے وہ دیکھ سکتے ہیں سبھی

حرفِ سادہ لوح میں ہے کانچ سی شفافیت

آخرِ امید کے لہجے میں اب کی بار تو

صاف گوئی سے کہیں آگے کی ہے سفاکیت

مار ڈالے گی دلِ کم بخت کو یہ بے دلی

کاٹنے کو دوڑتی ہے وقت کی یکسانیت

بے خبر ہے آتشَ خورشید کی مردانگی

زرد پڑتی جا رہی ہے ارض کی نسوانیت

انحطاطِ درجہِ اظہار ، کہ تن کے عوض

طے ہوئی ہے کیمیائے گفتگو کی مالیت

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]