چھپ گیا سورج یہ کہہ کر شام سے

لے سبق دنیا مرے انجام سے

روح کو ہم نے ہزاروں دکھ دئے

نفس کو رکھا بڑے آرام سے

ایک بازیچہ سمجھ کر اہل دل

کھیلتے ہیں گردش ایام سے

سوچئے ہر زاویے سے دہر میں

کیسے گزرے زندگی آرام سے

کر دیا ساقی نے ساغر چور چور

چھین کر اک رند تشنہ کام سے

کون در پر رہ گیا دم توڑ کر

دیکھتے تو تم اتر کر بام سے

ہو گیا برہم نظام میکدہ

ایک آواز شکست جام سے

آخرش فرط مصائب پر جلیؔ

روتے روتے سو گیا آرام سے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]