ڈرتا ہوں کسی دن نظروں کا دھوکا نہ کہیں ہو جاؤ تم

تعبیر سمجھتا ہوں تم کو، سپنا نہ کہیں ہو جاؤ تم

ہر روز بدلتے ہو منزل، ہر سمت میں چلتے ہو کچھ دیر

خواہش کے سفر میں رستے کا حصہ نہ کہیں ہو جاؤ تم

افسانے کچھ اپنے عنواں کے برعکس بھی نکلا کرتے ہیں

چہروں کی کتابیں پڑھتے ہو، ضایع نہ کہیں ہو جاؤ تم

جو آگ چھپائے پھرتے ہو، رکھ دے نہ سبھی کچھ پگھلا کر

پتھر ہو بظاہر اندر سے، لاوا نہ کہیں ہو جاؤ تم

چھپ کر ہی سہی رویا تو کرو، یہ ضبط بھی اتنا ٹھیک نہیں

بے آب نہ رکھو دشتِ انا، صحرا نہ کہیں ہو جاؤ تم

یہ قربتیں اتنی ٹھیک نہیں، ہر گام نہ میرے ساتھ رہو

پرتَو نہ سمجھ بیٹھوں اپنا، سایا نہ کہیں ہو جاؤ تم

دل میں جو خلش ہے ماضی کی، لفظوں میں اسے مت دہراؤ

ایسا نہ ہو اے جانانِ غزل، افسانہ کہیں ہو جاؤ تم

ہر لفظ علامت ہے میرا، ہر بات معمہ ہے میری

اک راز بنا ہوں اس لئے میں، افشا نہ کہیں ہو جاؤ تم

آتی ہے نظر جو کاغذ پر، ہے مختلف اس سے دنیا ظہیرؔ

ڈرتا ہوں کتابیں پڑھ پڑھ کر تنہا نہ کہیں ہو جاؤ تم

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]