ڈوب جاتا ہے یہاں تیرنا آتا ہے جسے

وہ کبھی ناؤ تھی دریا لیے جاتا ہے جسے

تیرا سایہ ہے لرزتا ہے جسے دیکھ کے تو

اور آئینہ ہے ، تو یہ آنکھ دکھاتا ہے جسے

باغباں بھی ہے یہی وقت یہی گل چیں بھی

توڑ لیتا ہے وہی پھول اُگاتا ہے جسے

ساری ہستی پہ نہ لے آئے وہ آفت کوئی

کون ہے کوہِ ندا روز بلاتا ہے جسے

ہم تو خوشبو کی طرح خود ہی بکھر جاتے ہیں

تم وہ دیوار کہ مزدور اٹھاتا ہے جسے

ٹوٹتے رشتے بھی اس درد سے جُڑ سکتے ہیں

آدمی پاؤں کی زنجیر بناتا ہے جسے

یہ چمکتی ہوئی آنکھیں یہ دمکتے ہوئے لب

ہے کوئی بات مظفرؔ سے چھپاتا ہے جسے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]