ڈوب گئیں سب یادیں اُس کی رنگ گُھلے اور شام ہوئی
دل نے جو بھی بزم سجائی ، بکھری اور ناکام ہوئی
پل بھر آگے جھوم رہی تھی کرنوں کی پھلواری سی
اب یہ خاموشی ، تنہائی ، ہائے رے کیسی شام ہوئی
گرم و گداز وہ سانسیں اُس کی ، جسم مہکتا انگارہ
دھیمی دھیمی آنچ لبوں کی حاصلِ صبح و شام ہوئی
آنچل کی اک لہر ذرا سی حدِ اُفق تک جا پہنچی
اُبھری اور سحر بن بیٹھی ، ڈوب گئی تو شام ہوئی
کتنی طویل اور کیسی کٹھن تھی رات حیات کی کیسے کٹی
اُن آنکھوں میں بیت گئی کچھ اور کچھ صرفِ جام ہوئی