کتنا سادہ بھی ہے سچا بھی ہے معیار ان کا

ان کی گفتار کا آئینہ ہے کردار ان کا

ان کے پیکر میں محبت کو ملی ہے تجسیم

پیار کرتا ہے ہر انساں سے ، پرستار ان کا

امتیازات مٹانے کے لیے آپ آئے

ظلم کی آگ بجھانے کے لئے آپ آئے

آدمیت سے تھا محروم گلستانِ حیات

اور یہ پھول کھلانے کے لیے آپ آئے

آپ کے دامنِ رحمت کا سہارا ہے مجھے

میں حکومت کی عنایت کا طلبگار نہیں

آپ کے سامنے کرتا ہوں یہ اعلان کہ میں

حق پرستی سے جو باز آؤں تو فنکار نہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]