کسی بھی لاٹری سے اور خزانوں سے نہیں ہوتی

ہماری حیثیت اونچی ، مکانوں سے نہیں ہوتی

دلوں میں زہر بھر کر کون یہ رشتے نبھاتا ہے

محبت آپ جیسے بدگمانوں سے نہیں ہوتی

ہماری خواہشوں کو گر مقدم رکھ لیا جاتا

کبھی رنجش ہماری خاندانوں سے نہیں ہوتی

سمندر سے خفا ہو کر الٹ دیتی ہیں ہر ناؤ

ہوا کی دشمنی ان بادبانوں سے نہیں ہوتی

ترے دکھ نے بہت سارے دکھوں کو پال رکھا ہے

کہ اب راحت ، مجھے راحت کے گانوں سے نہیں ہوتی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]