کس طرح وہ عالم کو نہ دیوانہ بنا دے

یہ حسن ، یہ انداز و ادا جس کو خدا دے

دیکھی نہیں جاتی ہے کسی سے مری حالت

اب وہ بھی یہ کہتے ہیں "​ خدا اس کو شفا دے "​

پھر ہوش کے عالم میں بھلا آؤں میں کیونکر

غش میں مجھے دامن سے جو وہ اپنے ہوا دے

جانبازیِ پروانہ پہ کیجے نہ تعجب

قسمت ہے ، جسے ہمتِ مردانہ خدا دے

وہ دیکھ کے کہتے ہیں مری نزع میں الجھن

"​ یوں موت جوانی میں کسی کو نہ خدا دے "​

کیا جانے وہ ، کیا لطف ہے آشفتہ سری میں

جب تک نہ کسی کو دلِ دیوانہ خدا دے

موسیٰ ! طلبِ دید پہ اصرار نہ کیجے

کیا ہو ، جو نقابِ رخِ روشن وہ اٹھا دے

خلقت کی زباں کا ہے یہ ادنیٰ سا کرشمہ

تھوڑی سی ہو بات ، اور وہ افسانہ بنا دے

آئے ہیں عیادت کو سرہانے دمِ آخر

اللہ مری نزع کے لمحات بڑھا دے

کیوں سجدے میں اس کے نہ جھکیں سب کی جبینیں

اک خاک کے پتلے کو جو انسان بنا دے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]