کمالِ عجز سے ہے، عجزِ باکمال سے ہے

یہ نعت ہے، یہ عقیدت کے خدو خال سے ہے

مجھے بھی ناجی سفینہ میں رکھ مرے مولا

مری بھی نسبتِ نوکر انہی کی آل سے ہے

سخی پہ ہے وہ جسے، جیسے، جب، عطا کر دے

عطا کا واسطہ عرضی سے ہے نہ حال سے ہے

بہار کو ترے کوچے سے ہے وہی نسبت

جو رنگ و نکہتِ ُگل کو وجودِ ڈال سے ہے

عجیب طرح کی سرشاریوں میں ہوں آقا

گزارا جب سے ترے ریزۂ نوال سے ہے

مجھ ایسے فرد سے ممکن کہاں ثنا تیری

بس ایک عرض ہے جو صیغۂ نڈھال سے ہے

بتا مدینے گیا تھا تو کھو گیا تھا کہاں

سوال میرا بجا طور پر سوال سے ہے

ہے ان کی مدح خود ان کی عطا سے ہی ممکن

یہ جذبِ حال سے ممکن نہ حرفِ قال سے ہے

کرم کے بعد بھی قائم رہی نویدِ کرم

معاملہ مرا تجھ جیسے لاج پال سے ہے

ہوائیں لائی ہیں مقصودؔ ُمشکِ کوئے اِرَم

بلاوا آیا مجھے قریۂ جمال سے ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]