کمبخت دل کو کیسی طبیعت عطا ہوئی

جب جب بھی دُکھ اُٹھائے ، مُسرت عطا ہوئی

پھر قحط سے مرے ہوئے دفنا دیئے گئے

اور چیونٹیوں کے رزق میں برکت عطا ہوئی

اُس حکم میں تھی ایسی رعونت کہ پہلی بار

ہم بُزدلوں کو کُفر کی ہمت عطا ہوئی

میں کیوں نہ فخر اُدھڑی ہوئی کھال پر کروں

اک شعر تھا کہ جس پہ یہ خلعت عطا ہوئی

مے خوار یار بھی تھے وہیں ، مے فروش بھی

دوزخ میں ہم کو چھوٹی سی جنت عطا ہوئی

مرتی محبتوں کے سرہانے پڑھا درود

اور پہلے وِرد سے ہی سہولت عطا ہوئی

پتھر تھا ، صدیوں رگڑا گیا ، آئینہ بنا

تب جا کے مجھ کو تیری شباہت عطا ہوئی

انعام عشق کا تو بہت بعد میں ملا

پہلے تو مجھ کو عشق کی حسرت عطا ہوئی

مزدوری کر کے بیٹھا رہا میں کئی برس

لیکن پسینہ سوکھا ، نہ اُجرت عطا ہوئی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]