کوفیوں جیسے مومنین کے نام

یہ غزل ہے منافقین کے نام

ایک نعرہ خرد کی حالت میں

دن بہ دن بڑھتے جاہلین کے نام

خاک کے ساتھ ہو گیا ہوں خاک

اور میں کیا کروں زمین کے نام

اک طوائف کے جسم پر لکھے ہیں

شہر کے سارے صالحین کے نام

ضبط کے ضابطے گماں کے سپرد

آہیں گریہ لہو یقین کے نام

یا مرا نام ہی نہیں ہے کوئی

یا کوئی لے گیا ہے چھین کے نام

کرنے والا ہوں جلد اپنا جنوں

تیرے جیسے کسی ذہین کے نام

روز لکھتا ہوں پانیوں پر میں

کربلا تیرے زائرین کے نام

یہ مرا آخری تماشا ہے

سب کی سب داد شائقین کے نام

دل پہ لکھے ہوئے ہیں میں نے فقیہہ

آٹھ دس اچھے حاسدین کے نام

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]