کو بکو ڈھونڈا گیا اور جا بجا ڈھونڈا گیا

وہ جو نا موجود تھا اس کا پتا ڈھونڈا گیا

کوئی اترا ہی نہیں سیلِ بلا کی گود میں

سرسری سا یوں تو مجھ کو بارہا ڈھونڈا گیا

اک تجسس تھا کہ جس سے سانس لی جاتی رہی

عمر بھر تارِ تنفس کا سرا ڈھونڈا گیا

زندگی تھی مختصر سو بد حواسی میں کٹی

جانے کیا مطلوب ٹھہرا اور کیا ڈھونڈا گیا

ذات کے زندان کی دیوار سر سے پھوڑ دی

ذات سے باہر کو جاتا راستا ڈھونڈا گیا

اس لیے بکھرا پڑا ہے ساز و سامانِ سخن

سخت عجلت میں بہانہ بات کا ڈھونڈا گیا

میں بھلے محدود تھا اس خاکداں میں ، پر تجھے

اس جہانِ آب و گِل سے ماورا ڈھونڈا گیا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]