کُو بہ کُو ہیں احمدِ مختار کی رعنائیاں

ہیں ازل سے تا ابد سرکار کی رعنائیاں

دو جہاں کو حُسن کی خیرات دیتی آئی ہیں

میرے آقا کے لب و رُخسار کی رعنائیاں

جس دیارِ پاک میں آئیں ملائک دم بہ دم

دیکھ لوں میں بھی اُسی دربار کی رعنائیاں

یوں تو ہر صنفِ سُخن مرغوبِ خاطر ہے مگر

منفرد ہیں نعت کے اشعار کی رعنائیاں

روشنی پھیلا رہی ہیں دہر میں چاروں طرف

کوئے طیبہ کے در و دیوار کی رعنائیاں

اُس پہ ہوتا ہے نزولِ رحمتِ پروردگار

جس نے دیکھیں کوچۂ سرکار کی رعنائیاں

اِک الگ ہی بات ہے میرے نبی کے شہر کی

جس کے آگے ہیچ ہیں سنسار کی رعنائیاں

مرحبا صد مرحبا طیبہ نگر کا مرتبہ

اللہ اللہ گنبد و مینار کی رعنائیاں

اُن کا منبر اُن کا روضہ اور سنہری جالیاں

خوب ہیں خاکیؔ درِ دُربار کی رعنائیاں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]