کُھلنے کا اب نہیں ہے یہ دروازہِ جنوں

قیدِ جنون بن گئی خمیازہِ جنوں

شاید ترے فقیر کی جھولی الٹ گئی

پھیلا ہوا ہے شہر میں شیرازہِ جنوں

نازک مزاج ، اپنے تخیل کو مت تھکا

تیری بساط میں نہیں اندازہِ جنوں

محوِ سفر کے ساتھ تری بازگشت تھی

یا دور گونجتا ہوا آوازہِ جنوں

جھڑنے لگی ہے جیسے کہولت ترے حضور

ائے نازِ نو بہارِ گلِ تازہِ جنوں

مشاطہِ خیال ترے تذکرے سے ہی

چہرے پہ تمتمانے لگا غازہِ جنوں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]