کچھ اس ادا سے کچھ ایسے ہنر سے اترے گا
کہ عمر بھر نہ وہ قلب و نظر سے اترے گا
عروج پر ہے تمازت دکھوں کے سورج کی
نجانے کب یہ مرے بام و در سے اترے گا
نجانے ختم ہو کب بے جہت سفر یارو
نجانے بوجھ یہ کب اپنے سر سے اترے گا
مرے خیال میں یہ انتہائے گریہ ہے
اب اس کے بعد لہو چشمِ تر سے اترے گا
ہمارے ضبط کی میعاد ختم کب ہو گی
ہمارے صبر کا پھل کب شجر سے اترے گا
مرا نگر کسی آسیب کی لپیٹ میں ہے
اب اس کا سایہ کسی دیدہ ور سے اترے گا
جو روک رکھا ہے طوفان اپنے دل میں سکونؔ
وہ بوند بوند مری چشمِ تر سے اترے گا