کہاں کہاں نہیں سرکارِ محترم پہنچے

شبِ عروج خدا تک شہِ اُمم پہنچے

سحابِ رحمتِ سرکار کب نہیں برسے ؟

طلب تپش نے بڑھائی تو ایک دم پہنچے

مرے حضور ہیں اس درجہ مہربان و شفیق

کہ چاہتے نہیں اُمت کو کوئی غم پہنچے

نہیں لگائی کبھی دیر دستگیری میں

لگائی میں نے صدا جب کرم کرم! پہنچے

یہ آرزو ہے مدینے میں اِس طرح جاؤں

بدن ہو سرتا قدم عجز‘ آنکھ نم پہنچے

یہ اُن کی چشم کرم کا کمال ہے صاحب

غزل کی صنف سے اُن کی ثناء میں ہم پہنچے

خدا نے خاص نوازا ہوے اُن کو عز و شرف

ثنائے یار میں جو صاحبِ قلم پہنچے

فضا بھی پھر شب اسریٰ کی ہو گئی تنویر

جو قربِ خاص میں حق کے شہِ اُمم پہنچے

تھے منتظر شبِ اسریٰ سب انبیا و رُسل

نمازِ اقصیٰ میں جب شاہِ محتشم پہنچے

وہ جان سے ہیں قریب اس قدر غلاموں کے

پکارا جس نے جہاں سے رکھا بھرم پہنچے

وہ سوئے خلد بھی سردار ہیں جہانوں کے

یہ ایسی شان ہے جس تک رُسل بھی کم پہنچے

جہانِ حشر بپا ہو گا اس لیے ازہرؔ

کہ دیکھنے انھیں ہر فردِ محترم پہنچے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]