کہنے میں آ کر مذاقِ عشق رسوا کر دیا

دل بضد تھا میں نے بھی شکوہ ذرا سا کر دیا

اس نے دانستہ کہ نا دانستہ ایسا کر دیا

دل کو غم انگیز کر لینے میں یکتا کر دیا

لا اِلٰہَ کہہ کے اس نے وقفِ الّا کر دیا

خود کہ بننا تھا سو تھا مجھ کو بھی تنہا کر دیا

غفلتوں کے سینکڑوں پردے گرائے ہم نے آپ

اپنی چاہت سے تو اس نے چاک پردہ کر دیا

جاں کے بدلے بھی نہ ہم دیتے تھے جس ایمان کو

اب اسی گوہر کو اف مٹی سے سستا کر دیا

عشقِ رنگیں کی قسم، لطفِ محبت کی قسم

اس دلِ آزردہ خاطر کو بھی رعنا کر دیا

راز گیتی کے اُسی واقف پہ جاں قرباں کریں

جس نے ہم کو واقفِ امروز و فردا کر دیا

سینکڑوں عقدے ہیں لا ینحل ابھی تک اے نظرؔ

تیر کیا مارا جو تو نے ایک دو وا کر دیا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]