کیسے رکھتا میں آنکھوں کا نم تھام کر
خوب رویا ستونِ حرم تھام کر
آپ حرفِ تسلی عطا کیجئے
در پہ آیا ہوں رنج و الم تھام کر
مجھ کو گرنے کا ڈر اب تو قطعاً نہیں
مجھ کو رکھتا ہے تیرا کرم تھام کر
بال بیکا ہمارا ہو کیوں حشر میں
ان کا دامن نہ چھوڑیں گے ہم تھام کر
حکمِ رحمان سے خلد میں جائیں گے
مدحِ محبوبِ رب کا علم تھام کر
اہلِ جنت مدینے کی تابانیاں
دیکھتے ہوں گے بابِ اِرم تھام کر
اذنِ مدحت عنایت ہو اشفاقؔ کو
کب سے بیٹھا ہے کاغذ قلم تھام کر