گفتگوئے شہ ابرار بہت کافی ہے

ہو محبت تو یہ گفتار بہت کافی ہے

یادِ محبوب میں جو گزرے وہ لمحہ ہے بہت

اس قدر عالم انوار بہت کافی ہے

مدح سرکار میں یہ کیف، یہ مستی ،یہ سرور

میری کیفیتِ سرشاربہت کافی ہے

للہ الحمد کہ ہم سوختہ جانوں کیلیے

شاہ کا سایہ دیوار بہت کافی ہے

کاش اک اشک بھی ہو جائے قبولِ شہ دیں

ایک بھی گوھرِ شہوار بہت کافی ہے

نصرتِ اہل ہمم کی نہیں حاجت مجھ کو

مددِ احمدِمختار بہت کافی ہے

بے ادب ! دیکھ نہ یوں روضے کی جالی سے لپٹ

کم نظر! بوسہ دیوار بہت کافی ہے

روبرو رہتے ہیں انوارِ مدینہ مظہر

حسرتِ جلوہ دیدار بہت کافی ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]