گفتۂ حضرتِ حسان کی تقلید میں ہیں

نعت گو سارے کے سارے صفِ تائید میں ہیں

نعت کے نُور سے اُبھریں گے بہ اوجِ طلعت

جو ہیولے مرے افکار کی تسوید میں ہیں

جس کے ما بعد ہی کُھلتی ہے کتابِ مدحت

حرف کے جملہ محاسن اُسی تمہید میں ہیں

خوف کیا گرمئ خورشیدِ قیامت کا کہ ہم

سایۂ گیسوئے والیل کی تبرید میں ہیں

وہ جو مدحت سے شرَف یابِ عنایت نہ ہُوا

ہم اُسی حرفِ تہی لطف کی تردید میں ہیں

کتنی راتوں میں تری تابشِ یادِ نَو ہے

کتنی صحبتیں ترے احساس کی تجدید میں ہیں

ٹھوکریں کھائیں گے وہ خائب و خاسر ہو کر

’’ وَرفَعنا لکَ ذکرک ‘‘ کی جو تحدید میں ہیں

اولِ خَلق بھی تُو ، افضلِ مخلوق بھی تُو

جملہ اوصآف تری ہستئ جاویدِ میں ہیں

مثلِ سرکارِ دو عالَم نہیں کوئی مقصودؔ

اوج کے سارے نشاں آپ کی تفرید میں ہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]