گمشدہ

چلے تھے گھر سے جب تو صرف عشق کی تلاش تھی
وہ عشق جس سے حرفِ حق کی گتھیاں سلجھ سکیں
وہ عشق جس سے ذات کا ہرایک رنگ کھل اٹھے
وہ عشق جس کے لمس سے بدن بکھر کے نور ہو
وہ عشق جس کے لحن میں ابھر کے حرف شعر ہو
وہ عشق جس کی روشنی بڑھے تو رات ڈھل سکے
وہ عشق جس کی پتیاں ابد تلک ہری رہیں
وہ عشق جس کی ٹہنیاں بقا کے بوجھ سے جھکیں
وہ عشق جو ہو انجمن جہاں کہیں قدم رکیں
چلے تھے گھر سے جب تو صرف عشق کی تلاش تھی
مگر عجب مذاق ہے
کہ راہِ عشق میں ہزار دام تھے فنا کے بھی
کہیں پہ ہجر و وصل کے دقیق مسئلے ہیے
انا کے ہاتھ نے بلا کے راہ سے ہٹا دیا
کہیں یقین کی کمی نے راستہ بھلا دیا
کہیں حصول کی طلب نے آستاں گنوا دیا
کہیں پہ بحث چھڑ گئی گناہ اور ثواب کی
کہ جو کیا ہے آج تک ،
غلط ہے یا کہ ٹھیک ہے
غلط ہے پھر تو رائیگاں
جو ٹھیک ہے تو کس لیے صلہ ابھی ملا نہیں
کہیں بدن کے جال تھے
کہ جن دام میں پھنسے تو عفتِ وفا گئی
کہ جن کی راہ پر چلے تو منزلِ بقا گئی
کہ جن کے نام پر بِکے تو حرمتِ دعا گئی
کھڑے ہیں جس جگہ وہاں سوال ہی سوال ہیں
چلے تھے گھر سے جب تو صرف عشق کی تلاش تھی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

ادھ کھلی گرہ

میں اساطیر کا کردار نہ ہی کوئی خدا میں فقط خاک کے پیکر کے سوا کچھ نہ سہی میری تاویل ، مرے شعر، حکایات مری ایک بے مایہ تصور کے سوا کچھ نہ سہی میری پروازِ تخیل بھی فقط جھوٹ سہی میرا افلاکِ تصور بھی قفس ہو شاید میرا ہر حرفِ وفا محض اداکاری ہے […]

بے دلی

وضاحتوں کی ضرورت نہیں رہی ہے کہ اب بطورِ خاص وضاحت سے ہم کو نفرت ہے جو دستیاب ہے بس اب وہی حقیقت ہے جو ممکنات میں ہے وہ کہیں نہیں گویا برائے خواب بچی ہے تو دست برداری فنونِ عشق پہ حاوی فنا کی فنکاری محبتوں کے تماشے بہت ہوئے اب تک دلِ تباہ […]