گو ہوں یکے از نغمہ سرایانِ محمد

شاید کہ مری لے نہیں شایانِ محمد

ہے پاسِ ادب شرطِ نُخُستینِ مَحبّت

بد مست نہ ہوں زمزمہ سنجانِ محمد

جو بھی ہے تجلی کہیں پھوٹی ہے یہیں سے

ہے مطلعِ ہر مہر، گریبانِ محمد

ظلمت کدہِ دہر میں لو دیتی رہے گی

تا صبحِ ابد شمعِ فروزانِ محمد

سورج کی طرح یہ بھی دلیل آپ ہے اپنی

محتاجِ نظائر نہیں برہانِ محمد

دیں اس کی صداقت کی تو منکر بھی گواہی

ہے مثلِ حرم حرمتِ پیمانِ محمد

آئینہِ اسکندر و پیمانہِ جمشید

ہر سنگ رہے آبلہ پایانِ محمد

جانے کہ نہ جانے کوئی مانے کہ نہ مانے

ہر دور ہے بہرہ ورِ فیضانِ محمد

اقرار سے ممکن ہے کہ مانع ہو تعصب

ہر قوم پہ ہے بیش و کم احسانِ محمد

ظاہر بھی نہاں بھی صفتِ لفظ و معانی

ادراکِ بشر سے ورا شانِ محمد

خاکی بھی ہے نوری بھی پیمبر بھی بشر بھی

ہے بھی کہیں یارب حدِ امکانِ محمد

تا حشر در و دشت کو مہکاتی رہے گی

خوشبوئے گلِ سنبل و ریحانِ محمد

مستقبلِ تہذیب ہے مخدوش، نہ جب تک

دستورِ زمانہ بنے قرآنِ محمد

ہم فرد ہیں جس ملتِ بیضا کے اسے بھی

حاصل نہیں حاصل نہیں عرفانِ محمد

تاویلِ احادیث کا آتا ہو جسے علم

ایسا نہ ملا کوئی زباں دانِ محمد

دل خوب سمجھتا ہے مَحبت کے تقاضے

ہر کسبِ کمال اس کا ہے قربانِ محمد

کیا جانیے کس بات پہ دنیا کو گماں ہے

خالؔد بھی ہے منجملہِ خاصانِ محمد

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]