گِرداب ، سفر کے لئے آزار ہوئے ہیں

دریا یہ سہولت سے کہاں پار ہوئے ہیں

وہ شور کہیں مل کے پرندوں نے کیا تھا

جس شور پہ ہم نیند سے بیدار ہوئے ہیں

اب اپنا ارادہ نہ بدل لینا کہ ہم لوگ۔

مشکل سے اجڑ جانے کو تیار ہوئے ہیں

صد شکر کسی کو تو ضرورت ہے ہماری

ہم لوگ ترے ہجر کو درکار ہوئے ہیں

ہر کرب کی سرخی ہے لکھی حرفِ جلی میں

چہرے بھی یہاں شام کا اخبار ہوئے ہیں

اب جسم کے ملبے سے نکالے کوئی ان کو

تعمیر کی حسرت میں جو مسمار ہوئے ہیں

عہدہ یہ بتاتے ہیں بڑی شان سے سب کو

ہم اپنے علاقے میں سخن کار ہوئے ہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]