ہجر کو خاک میں سمو کے دکھا
بیج اب خواہشوں کا بو کے دکھا
ضبط کہتا رہا کہ شش ! خاموش
زخم کہتا رہا کہ رو کے دکھا
سینکڑوں تجھ پہ مرنے والی ہیں ؟
چل مجھے فون ایک دو کے دکھا
کہہ دیا کہ نہیں دکھا منظر
بس نہیں کہہ دیا ہے ، گو کہ دکھا
تو مرے بعد خوب روئے گا
آنکھیں بند کر مجھے تو سو کے دکھا
مار ڈالوں گی مر بھی جاؤں گی
تو کسی اور کا تو ہو کے دکھا