ہر سانس ہے کراہ مگر تم کو اس سے کیا

ہو زندگی تباہ مگر تم کو اس سے کیا

تم ہو سہیلیوں میں مگن اور میرا حال

تنہائی بے پناہ مگر تم کو اس سے کیا

تم تو ہر ایک بات پہ دل کھول کر ہنسو

بھرتا ہے کوئی آہ مگر تم کو اس سے کیا

منزل ملی نہ ساتھ تمہارا ہوا نصیب

کھوئی ہے میں نے راہ مگر تم کو اس سے کیا

ہر سمت ہیں اداس منظر کھلے ہوئے

ویران ہے نگاہ مگر تم کو اس سے کیا

سیلاب میں سروں کی فصیلیں بھی بہہ گئیں

بے جرم بے گناہ مگر تم کو اس سے کیا

اب زندگی کی مانگتے ہیں بھیک در بہ در

شاہانِ کج کلاہ مگر تم کو اس سے کیا

گر تجزیہ کرو تو عیاں ہو نظر پہ نقش

ظاہر سفید و سیاہ مگر تم کو اس سے کیا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]