ہر مسافر ہے سہارے تیرے

کشتیاں تیری کنارے تیرے

تیرے دامن کو خبر دے کوئی

ٹوٹتے رہتے ہیں تارے تیرے

دھوپ دریا میں روانی تھی بہت

بہہ گئے چاند ستارے تیرے

تیرے دروازے کو جنبش نہ ہوئی

میں نے سب نام پکارے تیرے

بے طلب آنکھوں میں کیا کیا کچھ ہے

وہ سمجھتا ہے اشارے تیرے

کب پسیجینگے یہ بہرے بادل

ہیں شجر ہاتھ پسارے تیرے

میری آنکھوں کی مہک جاگتی ہے

پھول در پھول نظارے تیرے

میرا اک پل بھی مجھے مل نہ سکا

میں نے دن رات گزارے تیرے

وہ میری پیاس بتا سکتی ہے

کیوں سمندر ہوئے خارے تیرے

جو بھی منسوب تیرے نام سے تھا

میں نے سب قرض اتارے تیرے

تو نے لکھا میرے چہرے پہ دھواں

میں نے آئینے سنوارے تیرے

اور میرا دل وہی مفلس کا چراغ

چاند تیرے ہیں ستارے تیرے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]