ہر گام اُس طرف سے اشارہ سفر کا تھا

منزل سے دلفریب نظارہ سفر کا تھا

جب تک امید منزل جاناں تھی ہمقدم

دل کو ہر اک فریب گوارا سفر کا تھا

رہبر نہیں نصیب میں شاید مرے لئے

جو ٹوٹ کر گرا ہے، ستارہ سفر کا تھا

رُکنے پہ کر رہا تھا وہ اصرار تو بہت

مجبوریوں میں اُس کی اشارہ سفر کا تھا

آتی تھی اُس کے پاؤں سے زنجیر کی صدا

سامان گرچہ کاندھوں پہ سارا سفر کا تھا

نکلا تلاش ذات کا ساحل بھی نامراد

دریا کے اُس طرف بھی کنارہ سفر کا تھا

رستہ کٹا تو ساتھی یہ کہہ کر الگ ہوئے

منزل بخیر! ساتھ ہمارا سفر کا تھا

لوٹا تو پھرملی مجھے تحفے میں اک کتاب

دیکھا تو ایک تازہ شمارہ سفر کا تھا

بستی میں ہم ٹھہر کے تو بے آسرا ہوئے

خانہ بدوش تھے تو سہارا سفر کا تھا

راہیں الگ ہوئیں تو یہ مجھ پر کھُلا ظہیرؔ

وہ ہمسفر نہیں تھا، خسارہ سفر کا تھا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]