ہم اپنی کمزوریوں کو طاقت میں ڈھالتے ہیں

گلا دباؤ تو ہم بھی آنکھیں نکالتے ہیں

یہ نم رہے گا سدا میسر تو دیکھنا ہم

تمام پودوں کو کیسے گریے پہ پالتے ہیں

انہیں روایات کہنے والے غلط ہیں صاحب

یہ بیڑیاں ہیں جو لوگ پیروں میں ڈالتے ہیں

یہ داؤ سیکھا ہے ہم نے اپنے ہی دوستوں سے

جسے گرانا ہو پہلے اسکو سنبھالتے ہیں

اگر بچھڑنے یا ساتھ رہنے کا فیصلہ ہے

تو آؤ دونوں ہوا میں سکہ اچھالتے ہیں

ہمارے چہروں پہ رائیگانی کی دھول دیکھو

ہمیں تو آئینے اور حیرت میں ڈالتے ہیں

تمہاری یادوں سے ایسے بہلا لیا ہے دل کو

غریب فاقوں میں جیسے پتھر ابالتے ہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]