ہم سے ہی ایسے فکر کو پالا نہیں گیا

زیرِ زمین زر تھا نکالا نہیں گیا

جن کی دعا سے پیدا ہوئی ہے شعاعِ مہر

ان بستیوں میں اُس کا اُجالا نہیں گیا

گو سامنے نظر کے وہ شفاف جھیل تھی

دلدل سے اپنا پاؤں نکالا نہیں گیا

کچھ اس لیے بھی دور حقیقت کا شہر ہے

رنگوں سے آگے دیکھنے والا نہیں گیا

ہجرت وہ خود ہی کر گئیں یہ بھوک دیکھ کر

گھر سے ضرورتوں کو نکالا نہیں گیا

اس کو میں کس پتہ پہ جہاں میں کروں تلاش

دے وہ کوئی اپنا حوالہ نہیں گیا

ہم اس لئے بھی شہر میں بے ننگ و نام ہیں

ورثے میں جو ملا تھا سنبھالا نہیں گیا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]