ہم کیا جانیں قصہ کیا ہے ہم ٹھہرے دیوانے لوگ

اس بستی کے بازاروں میں روز کہیں افسانے لوگ

یادوں سے بچنا مشکل ہے ان کو کیسے سمجھائیں

ہجر کے اس صحرا تک ہم کو آتے ہیں سمجھانے لوگ

کون یہ جانے دیوانے پر کیسی سخت گزرتی ہے

آپس میں کچھ کہہ کر ہنستے ہیں جانے پہچانے لوگ

پھر صحرا سے ڈر لگتا ہے پھر شہروں کی یاد آئی

پھر شاید آنے والے ہیں زنجیریں پہنانے لوگ

ہم تو دل کی ویرانی بھی دکھلاتے شرماتے ہیں

ہم کو دکھلانے آتے ہیں ذہنوں کے ویرانے لوگ

اس محفل میں پیاس کی عزت کرنے والا ہوگا کون

جس محفل میں توڑ رہے ہوں آنکھوں سے پیمانے لوگ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]