ہونے ہیں شکستہ ابھی اعصاب ، لگی شرط

دھتکارنے والی ہوں میں سب خواب ، لگی شرط

اے شام کے بھٹکے ہوئے ماہتاب ، سنبھل کر

ہے گھات میں بستی کا یہ تالاب ، لگی شرط

اچھا تو وہ تسخیر نہیں ہوتا کسی سے

یہ بات ہے تو آج سے احباب ، لگی شرط

پھر ایک اسے فون میں رو رو کے کروں گی

پھر چھوڑ کے آجائے گا وہ جاب ، لگی شرط

اس شخص پہ بس اور ذرا کام کرونگی

سیکھے گا محبت کے وہ آداب ، لگی شرط

جو دکھ کی رتوں میں بھی ہنسی اوڑھ کے رکھیں

ہم ایسے اداکار ہیں نایاب ، لگی شرط

جب چاہوں تجھے توڑ دوں میں کھول کے آنکھیں

اے چشم اذیت کے برے خواب ! لگی شرط

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]