ہو کرم کی نظر اس گنہگار پر ، ہا تھ باندھے کھڑا ہے یہ در پر شہا

ہو کرم کی نظر اس گنہگار پر ، ہاتھ باندھے کھڑا ہے یہ در پر شہا

کچھ نواسوں کا صدقہ عطا کیجئے ، اپنا دامن یہ لے جائے بھر کر شہا

آپ کے در پہ آتے ہیں شاہ و گدا ، لوٹ کر در سے کوئی نہ خالی گیا

جس نے مانگا ہے جو بھی مرِے مصطفیٰ ، آپ نے اْس کو بھیجا ہے دے کر شہا

کیوں نہ شہر مدینہ ضیا بار ہو ، اسکے چاروں طرف نور ہی نور ہو

ہیں ہوائیں بھی کتنی مصفّٰی یہاں اور فضاء بھی ہے کتنی معطّر شہا

جس نے جھیلے ہیں صدمے سدا ہجر کے ، دور طیبہ سے آخر وہ کیونکر رہے

کیف ملتا ہے کیسا یہاں وصل میں ، ہم نے دیکھا مدینے میں آ کر شہا

ہاتھ جوڑے کھڑا ہے جلیلِ حزیں ، آپ کے در کا منگتا ہے اے شاہ دیں

لوٹ کر پھر بھی آئے گا یہ بالیقیں ، اس کو اذنِ حضوری ملے گر شہا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]