ہیں مرے وجود میں موجزن مری الفتوں کی نشانیاں

نہ ہوئیں نصیب جو قربتیں انہیں قربتوں کی نشانیاں

تھکی ہاری شکل نڈھال سی کسی امتحاں کے سوال سی

مرے جسم و جان پہ ثبت ہیں تری فرقتوں کی نشانیاں

کبھی آنکھیں غیظ سے تربتر کبھی لعن طعن زبان پر

مجھے میری جاں سے عزیز ہیں تری نفرتوں کی نشانیاں

ہو وہ بوئے گل کہ ہو راگنی ہو وہ آبشار کہ چاندنی

ہیں قدم قدم پہ سجی ہوئیں تری نزہتوں کی نشانیاں

کئی بار روز کئی جگہ مری روح پڑھتی ہے فاتحہ

مرے پورے جسم میں دفن ہیں مری حسرتوں کی نشانیاں

کہیں ناچتی ہوئیں مستیاں کہیں بھوک سے ہیں لڑائیاں

کہیں دولتوں کے مظاہرے کہیں غربتوں کی نشانیاں

وہ زمین ہو کہ ہو آسماں وہ پہاڑ ہوں کہ ہوں وادیاں

ہیں چہار سمت مرے خدا تری رحمتوں کی نشانیاں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]