ہے ثبت تری ذات سے تاریخ بشر میں

وہ عزم کے تھکتا نہیں طائف کے سفر میں

تو نور ازل تاب سر مطلع تخلیق

فیضان ضیا تجھ سے ہے دامان سحر میں

خورشید کے کاسہ میں ترا صدقہ انوار

خیرات ترے حسن کی کشکول قمر میں

اے سارے جہانوں کے لیے مژدۂ رحمت

احوال زمانوں کے سبھی تیری نظر میں

درپیش ہے بے سمت مسافت کی اذیت

اس دور کا انسان ہے دانش کے بھنور میں

اشکوں کو زمین پر بھی میں گرنے نہیں دیتا

سرمایا تری یاد کا ہے دیدۂ تر میں

انور مرے دیوان میں ہے نعت پیمبر

کیا توشہ عقبٰی ہے مرے رخت سفر میں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]