ہے ہمیں ہجر کی بھٹی میں پگھلنا سب کچھ

کیمیا ہوں کہ مسِ خام ، غرض یہ بھی نہیں ہے

کوئی باقائدہ آغاز نہیں تھا کل بھی

کوئی باضابطہ انجام ، غرض یہ بھی نہیں ہے

کیوں چھپاتا ہے عبث اپنے بدن کے غنچے

تجھ سے ائے پیکرِ گلفام ، غرض یہ بھی نہیں ہے

ہم سے رکتی ہی نہیں سینہِ بِسمل میں صدا

کوئی آئے گا سرِ بام ، غرض یہ بھی نہیں ہے

فطرتاً کارِ محبت پہ ہیں پابند ، کہ ہم

کامراں ہوں کہ ہوں ناکام ، غرض یہ بھی نہیں ہے

خود کلامی ہی سہی شعر ، چلو ، دیدہ ورو

وہم ٹھہرے ہیں کہ الہام ، غرض یہ بھی نہیں ہے

ہم وہ درویشِ سخن ہے کہ سرِ بزمِ جہاں

داد پاتے ہیں کہ دشنام ، غرض یہ بھی نہیں ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]