یوں لگتا ہے اٹھتا ہوا طوفان وہی ہے

کشتی کو سنبھالو کہ پھر امکان وہی ہے

مائل وہ ہوئے بھی ہیں تو کس طرح میں جانوں

یارو درِ دولت پہ تو دربان وہی ہے

اس دور کے انساں پہ نئی رائے نہ تھوپو

اچھا یا برا جیسا ہے انسان وہی ہے

اس بار بہاروں میں کمی تو نہ تھی لیکن

گلشن کے مہک اٹھنے کا ارمان وہی ہے

اے بلبلِ شوریدہ ، بہاروں پہ نہ خوش ہو

تو سمجھی جسے فائدہ ، نقصان وہی ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]