یہاں کسی سے مزاجِ فغاں نہیں ملتا

زمیں ملے تو ملے آسماں نہیں ملتا

ہزار سعیِ مسلسل بقدرِ شوق سہی

مکاں تو ملتے رہے لامکاں نہیں ملتا

ہمیں کو حیف نہیں ذوقِ دید و شوقِ نظر

وہ کس جگہ نہیں ملتا کہاں نہیں ملتا

مذاقِ درد پسندیِ دل ملول نہ ہو

کمی ہے غم کی کہاں ، کہاں نہیں ملتا

فراق و وصل تو جذبِ طلب پہ ہے موقوف

قفس کی قید میں کب آشیاں نہیں ملتا

چراغِ دردِ محبت ! ذرا بڑھا دے لَو

کہ میری زیست کو میرا نشاں نہیں ملتا

ہمیشہ جس میں رہا ہو بہار کا موسم

مجھے تو ایسا کوئی گلستاں نہیں ملتا

وہ کیا ملے گا ؟ نہاں ہو جو لاکھ پردوں میں

کہ خود جلیؔ کو بھی اپنا نام و نشاں نہیں ملتا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]