یہی جی میں ہے

یہی جی میں ہے
تری رحمتوں کے حصار میں ترے آستاں پہ کھڑا رہوں
تری اُونٹنی کے سفر میں جو ‘اُڑی ریت ‘اُڑ کے دھنک بنی
اُسے اپنی آنکھ سے چوم لوں،اُسے اپنی جاں میں اُتار لوں
اُسی محترم سے غبار میں ،ترے راستوں میں پڑا رہوں

یہی جی میں ہے
یہی جی میں ہے ،ترے شہرمیں کبھی ایسے گھوموں گلی گلی
ترانقشِ پا مرے ساتھ ہو
مجھے یوں لگے کہ قدم قدم
ترے ہاتھ میں مراہاتھ ہو
ترالطف اس کوسکون دے یہ جو سانس سانس ہے بے کلی

مرے خوش نظر،مرے چارہ گر ،مرے رازداں ،مرے مہرباں
یہ جو چارسو ہے خلا مرے ،یہ جووقت بہتا ہے درمیاں
اسے کھول میرے شعور پر
اسے کھول میرے شعور پرکہ نشاں ملے،یہ نشاں ملے
کہ جو واہموں کے چراغ ہیں یہ جلے ہوئے ہیں کہاں کہاں

یہی جی میں ہے ترے درپہ میں
کبھی ایسے جاکے صدا کروں
توپلٹ کے پوچھے جومُدعا
تومیں بے دھڑک ،تجھے مانگ لوں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]